مرنے کے بعد فیس بُک سمیت ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا ہوتا ہے اور اس ضمن میں وصیت کرنا ضروری کیوں ہے؟
’کچھ لوگ نہیں جانتے کہ میتھیو مر چکے ہیں۔ آج بھی جب ان کی سالگرہ کا دن آتا ہے تو سوشل میڈیا پر ان کی فرینڈز لسٹ میں موجود لوگ انھیں سالگرہ کی مبارکباد کے پیغامات بھیجتے ہیں۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔‘
ہیلی نامی خاتون کے شوہر میتھیو دو سال پہلے کینسر کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا گئے تھے۔ میتھیو کی عمر 33 برس تھی۔ میتھیو کی اہلیہ ہیلی آج بھی اس مشکل سے دوچار ہیں کہ وہ اپنے مرحوم شوہر کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا کریں۔
ہیلی نے بتایا کہ ’میں نے میتھیو کے فیس بُک پر موجود اکاؤنٹ کو میموریل پیج میں بدلنے کی کوشش کی۔ کسی شخص کے فیس بُک اکاؤنٹ کو میموریل پیج میں بدلنے کی لیے فیس بُک ایڈمن آپ سے ان کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ اپ لوڈ کرنے کو کہتا ہے۔‘
’میں 20 مرتبہ اپنے شوہر کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ اپ لوڈ کر چکی ہوں لیکن اس کے باوجود میرے شوہر کا فیس بُک اکاؤنٹ بدستور فعال ہے (یعنی وہ میموریل پیج میں نہیں بدل پا رہا)۔ مجھ میں اب مزید اتنی ہمت نہیں ہے کہ میں فیس بُک انتظامیہ سے رابطہ کر کے اس مسئلے کو حل کروں۔‘
فیس بُک میموریل (یادگاری) اکاؤنٹ کیا ہوتا ہے؟
ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب دنیا بھر میں اربوں صارفین فیس بُک، ٹوئٹر سمیت دیگر درجنوں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استمعال کرتے ہیں تو ایک بڑا موضوعِ گفتگو یہ بن چکا ہے کہ آن لائن موجود کسی شخص کی وفات کے بعد اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا ہو گا۔
کسی بھی وفات پا جانے والے شخص کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس (فیس بُک وغیرہ) اُس وقت تک ایکٹیو یا فعال رہتے ہیں جب تک محروم کا کوئی رشتہ دار سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اُن کی موت سے متعلق آگاہ نہیں کرتا۔
چند سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ایسے ہیں جو مرنے والے سوشل میڈیا صارف کے کسی قریبی رشتہ دار کی جانب سے صارف کی موت کی تصدیق کے بعد اکاؤنٹ کو بند کر دیتے ہیں جبکہ چند سوشل میڈیا پلیٹ فارمز متبادل ذرائع اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر فیس بُک اور انسٹاگرام استعمال کرنے والے کسی صارف کی اگر موت ہو جاتی ہے تو وہ کسی قریبی رشتہ دار کی جانب سے صارف کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پیش کرنے یا اپ لوڈ کرنے مرنے والا کا اکاؤنٹ یا تو ڈیلیٹ کر دیتے ہیں یا اسے میموریل پیج (مرنے والے کا یادگاری پیج) میں بدل دیتے ہیں۔ میموریل پیج پر لواحقین یا دوست احباب اپنے مرنے والے پیارے سے متعلق یادگاری تصاویر اور تحریریں پوسٹ کر کے اسے خراج تحسین پیش کر سکتے ہیں اور یاد کر سکتے ہیں۔
میموریل اکاؤنٹ پر مرحوم صارف کے نام کے ساتھ ایک مخصوص نشان ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر مرنے والے نے اپنی موت سے قبل کسی کو اپنا اکاؤنٹ چلانے کے لیے ’جانشین‘ قرار نہیں دیا تو کوئی بھی شخص اس میموریل اکاؤنٹ پر لاگ اِن نہیں کر سکتا۔
فیس بک پر موجود ایسے میموریل یا یادگاری اکاؤنٹس کو دوسرے افراد کے اکاؤنٹس پر بطور ’پیپل یو مے نو‘ یعنی یہ شخص آپ کا ممکنہ دوست ہو سکتا ہے، کے طور پر نہیں ظاہر کیا جاتا اور مرنے والے شخص کے دوستوں کو ان کی سالگرہ کے نوٹیفیکیشن بھی نہیں جاتے۔
گوگل (یوٹیوب، جی میل اور گوگل فوٹوز کی مالک کمپنی ہے) اپنے صارفین کو یہ آپشن دیتا ہے کہ وہ اپنا غیر فعال اکاؤنٹ کی سیٹنگ میں یہ طے کر دیں کہ ایک خاص مدت تک ان کا اکاؤنٹ غیرفعال رہنے کے بعد کسی صارف کے اکاؤنٹ اور اس میں موجود ڈیٹا کے ساتھ کیا کیا جائے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اپنے صارفین کو کے اکاؤنٹ کو میموریل یا یادگاری اکاؤنٹ بنانے کی آپشن نہیں دیتا۔ یہاں آپ کی موت یا بوجوہ اکاؤنٹ استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں اکاؤنٹ غیرفعال کر دیا جاتا ہے۔
بی بی سی ورلڈ سروس کے نمائندہ ٹیکنالوجی جو ٹائڈی کہتے ہیں کہ ’اس معاملے (موت کی صورت) میں ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا اپنا طریقہ کار ہے، لیکن تمام سوشل میڈیا کمپنیاں مرنے والوں کی پرائیویسی کو ترجیح دیتی ہیں۔‘
’ضرورت پڑنے پر آپ کو مرنے والے صارف کے لاگ اِن تفصیلات نہیں دی جاتیں، جبکہ آپ مرحوم شخص کے مخصوص ڈیٹا جیسا کہ تصاویر اور ویڈیوز وغیرہ تک رسائی عدالتی حکم کے تحت ہی حاصل کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسا کہ ٹک ٹاک اور سنیپ چیٹ پر اس ضمن میں کوئی انتظام یا گائیڈ لائنز موجود نہیں ہیں۔ یعنی اگر کوئی ٹک ٹاک یا سنیپ چیٹ صارف کی موت ہو جاتی ہے تو اس کے اکاؤنٹ کا کیا ہو گا۔
کیا ہمیں اپنی ڈیجیٹل وصیت تیار رکھنی چاہیے؟
سربیا کی وزارت داخلہ میں ہائی ٹیک کرائم کے شعبے کے سابق سربراہ اور سائبر کرائم کے ماہر ساسا زیوانووچ کہتے ہیں کہ اگر ڈیٹا، تصاویر یا دیگر مواد غلط ہاتھوں میں چلے جائے تو مرنے والے صارفین کے فعال پروفائلز ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔
مرنے والے کے پورے اکاؤنٹ کا کنٹرول بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’مرنے والے کی تصاویر، ڈیٹا اور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے فرضی نام سے جھوٹے اکاؤنٹ بنائے جا سکتے ہیں جن کی مدد سے مرنے والے کے جاننے والوں اور دوستوں سے فراڈ کے ذریعے پیسہ وصول کیا جا سکتا ہے۔‘
برطانیہ کی ڈیجیٹل لیگیسی ایسوسی ایشن کے بانی جیمز نورس نے اس بات پر زور دیا کہ ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوشل نیٹ ورکس پر اپ لوڈ کیے جانے والے مواد کے بارے میں سوچے اور جب ممکن ہو تو بیک اپ بنائیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ مثال کے طور پر فیس بک پر، آپ اپنی تصاویر اور ویڈیوز کا مکمل آرکائیو ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور اسے اپنے قریبی رشتہ داروں کو منتقل کر سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’اس لیے اگر مجھ میں کسی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے اور میرا کوئی چھوٹا بچہ ہے جو فیس بک پر نہیں تو میں اپنی تمام تصاویر اور ویڈیوز ڈاؤن لوڈ کر سکتا ہوں، پیغامات ہٹا سکتا ہوں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میرا بچہ میرے نجی پیغامات دیکھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے کہ آپ کی موت کی صورت میں آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا کیا ہونا چاہیے۔ وہ صارفین پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی ’ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا وصیت‘ تیار کریں جس سے پتہ چلے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے اکاؤنٹس کا کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’سوشل نیٹ ورکنگ ایک کاروبار ہے. یہ پلیٹ فارمز آپ کی ڈیجیٹل وراثت کے محافظ نہیں ہیں۔ آپ کی ڈیجیٹل وراثت کے محافظ آپ خود ہیں۔‘
لیکن اس کے باوجود ان کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کسی مرحوم صارف کے سوگوار رشتہ داروں کے لیے اس عمل کو آسان بنا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’ہر پلیٹ فارم پر دستیاب خصوصیات اور ٹولز کے بارے میں آگاہی بڑھانا ضروری ہے۔اگرچہ وہ دستیاب ہوتے ہیں لیکن ہر کوئی نہیں جانتا کہ وہ موجود ہیں۔‘
لیکن ہیلی اور میتھیو کے لیے اس پر تبادلہ خیال کرنا آسان موضوع نہیں تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’جب کینسر میں مبتلا میتھیو مرنے کے قریب تھے تو میں نے اس بارے میں اُن سے کوئی بات نہیں کی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اپنے شوہر سے مرنے سے متعلق کوئی بھی بات کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔‘
’مرنے سے کچھ عرصہ قبل وہ شدید بیمار ہو گئے اور اپنا آپ کھو بیٹھے، اس لیے وہ میرے سوالوں کا جواب دینے کے قابل بھی نہیں تھے۔‘
ان کی شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا جب میتھیو کو جولائی 2016 میں 28 سال کی عمر میں سٹیج 4 گلوبلاسٹوما کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔
اس تشخیص کے بعد ڈاکٹر نے ہیلی سے کہا کہ ‘آپ کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدلنے والی ہے۔‘
ڈاکٹر نے ہیلی کو بتایا کہ میتھیو کو برین ٹیومر ہے اور ان کی جان بچانے کے لیے انھیں فوری طور پر سرجری کی ضرورت ہے۔
اگرچہ سرجری اور اس کے بعد کیموتھراپی اچھی طرح سے ہوئی، لیکن کچھ وقت بعد ٹیومر واپس آ گیا اور انھیں بتایا گیا کہ میتھیو کے پاس زندہ رہنے کے لیے صرف ایک سال باقی ہے۔
ہیلی کہتی ہیں کہ ’ان کا نام ہر چیز پر تھا، ہمارے بلوں پر، تقریباً ہر چیز پر، جو کچھ میرے پاس تھا۔ اس لیے مجھے سب کچھ منتقل کرنا پڑا اور یہ بہت مشکل تھا۔ مجھے ان تمام چیزوں کا منتظم بننے میں تقریباً 18 ماہ کا وقت لگا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ وہ اب بھی میتھیو کے فیس بک پیج کو یادگاری بنانا چاہتی ہیں لیکن وہ اس وقت ایسا کر نہیں پا رہیں۔
’میرے خیال میں اپنے کسی پیارے کے موت کے سرٹیفکیٹ جیسے دستاویز کو مسلسل دیکھنا واقعی تکلیف دہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایسا کرنے سے گریز کر رہی ہوں کیونکہ یہ صرف ایک خوفناک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ واقعی ایک انتہائی پیچیدہ عمل ہے اور کمپنیوں کو سوگوار لوگوں کے لیے اسے آسان بنانا چاہیے۔‘
شکریہ :
- سرلن گریت اور گروئیسا اینڈرک
- عہدہ,بی بی سی ورلڈ سروس