تارہ ترین

سٹیج پر فحاشی ،الزام یا حقیقت ؟؟؟

0

پاکستان میں غریب کے لئے ذہنی و جسمانی تفریح کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ غریب ممالک
میں فلم ہی تفریح کا بڑا ذریعہ ہماری فلم انڈسٹری برباد ہو چکی مہنگائی کے باعث غریب کا سینما ہال جاکر فلم دیکھنا خواب سے کم نہیں ۔ ایسے میں لے دے کر صرف تھیٹر ایک ایسی تفریح بچتی ہے جہاں کچھ پل کے لئے ہی سہی انسان اپنے دکھ تکلیفیں بھول کر ہنسی کو ہونٹوں پر لا سکتا ہے پاکستان تھیٹر نے لازوال ڈرامے پیش کئے پاکستانی سٹیج فنکاروں نے لوگوں کے یونٹوں پر مسکراہٹیں اور قہقہے بکھیرے امان اللہ ببوبرال مستانہ سہیل احمد شوکی خان معین اختر عمر شریف جیسے فنکاروں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک لوگوں کو ہنسنا سکھایا مگر گزشتہ کچھ عرصہ سے تھیٹر انڈسٹری پر فحاشی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے نگران حکومت نے پوری تھیٹر انڈسٹری ہی اس الزام کے تحت بند کر دی جس سے ڈیلی ویجز فنکار اور تھیٹر سے وابستہ ہنر مندوں کے گھروں کے چولہے بجھ گئے میں بھی اور لوگوں کی طرح اسی غلط فہمی کا شکار تھا کہ تھیٹر کے لوگ برے ہوتے ہیں یہ معاشرے کی ہر برائی کے زمہ دار ہیں اور حکومت معاشرے کو فحاشی وعریانی سے بچانے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے میں حق بجانب ہے مگر گزشتہ دنوں مجھے کچھ دوستوں کے اصرار پر سٹیج ڈرامہ دیکھنے کا اتفاق ہوا اور میں پہلی بار کسی بھی تھیٹر پر گیا تھا اس سے پہلے تھیٹر کے بارے میں میری سوچ سنی سنائی باتوں سے متاثر تھی ہم لوگ لاہور کے محفل تھیٹر میں گئے وہاں کنگن نام کا ڈرامہ سٹیج کیا جا رہا تھا جس کے رائٹر ڈائریکٹر کے طور پر ڈاکٹر اجمل ملک کا نام لکھا ہوا تھا یہ چونکہ میرا پہلا موقع تھا سٹیج ڈرامہ دیکھنے کا تو کسی بھی فنکار یا فنکارہ کو نہیں جانتا تھا میں تو ذہن میں انتہائی برا امیج لے کر ہال کے اندر گیا تھا مگر جب باہر نکلا تو سٹیج اور اس سے وابستہ فنکاروں کے بارے میرے خیالات میں تبدیلی آ چکی تھی ڈرامہ لو سٹوری کو بنیاد بنا کر لکھا گیا تھا اور اس میں پرفارم کرنے والے تمام ہی فنکاروں نے انتہائی خوبصورتی سے اپنے کردار ادا کئے تھے ڈرامہ میں وصی شاہ کی نظم کنگن کو ایسی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا تھا اور اس پر اداکارہ آفرین پری اور ساقی خان نے کچھ اس انداز سے پرفارم کیا تھا کہ خود بخود ہاتھ داد دینے کے لئے تالیاں بجانے پر مجبور ہو گئے اس پرفارمنس کو دیکھنے کہ بعد ہی ان اداکاروں کے نام جاننے کی خواہش پیدا ہوئی ڈرامہ ڈانس پرفارمنسز بھی اچھی تھیں مگر ڈرامیٹک پورشن کا تو کوئی جواب نہیں تھا ڈرامہ دیکھنے کے بعد دو باتوں کا احساس ہوا ایک تو یہ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فحاشی کے بغیر ڈرامہ نہیں چل سکتا وہ احمق ہیں دوسرا یہ کہ ہمارے بیوروکریٹ اور بابو لوگ صرف دفتروں میں میں بیٹھ کر فیصلے کر دیتے ہیں کبھی دفتروں سے نکل کر ڈرامہ دیکھنے کی زحمت نہیں کی بس یہی مان کر فیصلے کر دیتے ہیں کہ تھیٹر سے وابستہ لوگ اچھے نہیں ہوتے جیسے ہماری پولیس اپنے مخبر خاص کی اطلاع پر گرفتاریاں کرتی ہے ویسے ہی بنا دیکھے ہمارے بابو لوگ تھیٹر پر پابندیاں لگا رہے ہیں آج تک تھیٹر ڈرامہ 1876 کے ڈرامیٹک ایکٹ کے تحت پیش کیا جا رہا ہے ڈیڑھ سو سال سے اس قانون کو تو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کر سکے جو انگریز نے حریت پسندوں کی آواز دبانے کے لئے بنایا تھا اس کو ہم استعمال کرتے ہیں اپنے فنکاروں کو دبانے اور بلیک میل کرنے کے لئے ڈرامہ کو باقاعدہ سنسر کمیٹی دیکھتی ہے جس میں تین محکموں کے لوگ ہوتے ہیں کیا کبھی کسی افسر نے یہ دیکھنے کی زحمت کی ہے کہ ہمارے لوگوں نے جو سنسر پاس کی تھی پرفارمنس اس سے ہٹ کر ہے یا مطابقاگر کسی نے سنسر قواعد کی اور سنسر کمیٹی سے پاس شدہ مواد سے ہٹ کر کچھ پیش کرنے کی جسارت کی ہے تو اسے ضرور سزا دیں مگر صرف اس بنیاد پر کہ مجھے برا لگتا ہے پابندی لگا دو تھیٹر سیل کر دو اور دوسرا کمیٹیوں میں کلچر اور شوبز سے وابستہ کوئی شخص نہیں کلرک اور چپڑاسی ان کمیٹیوں کا حصہ ہیں جنہیں مزاح اور اداکاری کی الف ب کا بھی پتہ نہیں اور وہ آرٹسٹوں کے فن کو جانچ رہے ہیں ارباب اختیار کو چاہئے کہ اپنے ائیر کنڈیشنڈ دفاتر سے نکلیں خود ڈرامہ دیکھیں اور پھر پابندی لگائیں مگر پابندی لگانے سے پہلے یہ بھی دیکھ لیں کہ جس پرفارمنس کی بنیاد پر پابندی لگانے کا فیصلہ کر رہے ہیں کہیں وہ آپ ہی کی سنسر کمیٹی نے پاس تو نہیں کی اگر ایسا ہے تو پھر گنہگار کون ہے یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے

Leave A Reply

Your email address will not be published.