ہمیں ذمہ دار ٹھہرانے والے بتائیں، ہمارے دور میں دہشتگردی کیوں نہیں ہوئی؟ عمران خان
لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سانحہ پشاور انتہائی دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس پر سیاست کی جا رہی ہے، ہمیں ذمہ دار ٹھہرانے والے بتائیں کہ ہمارے دور میں دہشت گردی کے واقعات کیوں نہیں ہوئے؟
ویڈیو لنک کے ذریعے اپنے خطاب میں چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا پولیس نے بہت زیادہ قربانیاں دیں، افسوس اتنا بڑا سانحہ ہوا اورسیاست کی جارہی ہے، قوم کو بتانا چاہتا ہوں یہاں تک پہنچے کیسے، چند ماہ سے پھر سے دہشت گردی شروع ہو گئی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ افغان جہاد کے بعد سب کو پتا تھا ردعمل آنا ہے، مشرف نے 2003ء میں قبائلی علاقوں میں پہلی دفعہ فوج بھیجی، قبائلی علاقے پرامن علاقے تھے، جب قبائلی علاقوں میں فوج بھیجی تومسئلے شروع ہو گئے، فوج بھیجنے پرقبائلی علاقوں میں بڑا غصہ تھا، پشتونوں نے 2002ء کے الیکشن میں ایم ایم اے کو ووٹ دے کر بتا دیا وہ جنگ کےخلاف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے ہم امریکا کی جنگ میں شامل ہوتے گئے تو آہستہ آہستہ پاکستان میں دہشت گردی بڑھتی گئی، جب میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں آواز اٹھاتا تو مجھے طالبان خان کہا جاتا، ڈرون حملوں کے خلاف واحد میں تھا جس نے آواز بلند کی تھی باقی تو ڈرتےتھے، 2004ء سے آہستہ آہستہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی شروع ہو گئے، ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے پولیس والوں سے بدلہ لیتے تھے، جب ہم نے خیبرپختونخوا میں اقتدار سنبھالا تو پولیس ریفارمز کی اور پولیس کی ٹریننگز کرائیں۔
عمران خان نے کہا کہ 2021ء میں جب امریکا نےافغانستان سےانخلا کا اعلان کیا توہمیں خانہ جنگی کا خوف تھا، خوف تھا جب افغانستان میں خانہ جنگی ہو گی تو پاکستان پر بھی اثرات پڑیں گے، جنرل (ر) باجوہ سے اچھے اچھے کاموں پر ایک پیج پر تھے، ایکسٹینشن کے بعد جنرل (ر) باجوہ سے اختلاف شروع ہوا، جنرل (ر) باجوہ نے کہا ان کو این آر او دے دو جس پر میں نے انکار کر دیا تھا، دوسرا اختلاف باجوہ سے جنرل (ر) فیض کی وجہ سے ہوا، میں چاہتا تھا افغانستان سے امریکا کے انخلا کے دوران بیسٹ کھلاڑی جنرل فیض کو ہونا چاہیے تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ صدر اشرف غنی بھاگ گیا اور طالبان نے کنٹرول سنبھال لیا، اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی تو سب سے زیادہ پاکستان کو نقصان ہوتا، پاکستان کے اس وقت افغانستان کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے، افغانستان کے ساتھ ڈھائی ہزارکلومیٹر تک ہمارا بارڈر ہے، ہماری کوشش تھی افغانستان میں استحکام آجائے، ہم نےدوحہ میں ڈائیلاگ کرائے تاکہ افغانستان میں استحکام آئے، اس کے بعد بدقسمتی سے رجیم چینج سے ہماری حکومت کو ہٹا دیا گیا، اس وقت جنرل باجوہ سے کہا اس وقت افغانستان حکومت پاکستان کی اینٹی نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جب ان کی حکومت آئی تو ان کو کسی چیز کی سمجھ نہیں تھی، پشاور مسجد دھماکہ، شواہد آنے سے پہلے ہی گورنر نے الیکشن میں تاخیر کا خط لکھ دیا، گورنر نے کہہ دیا کہ الیکشن میں تاخیر کی جائے، لوگوں کو تو پہلے ہی اس حوالے سےخدشات تھے۔
انہوں نے کہا کہ آج جو ہمیں ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں ان سے پوچھتا ہوں ہماری حکومت میں دہشت گردی کے واقعات کیوں نہیں ہوئے؟ مارچ، اپریل تک بتایا جائے خیبرپختونخوا میں کتنی دہشت گردی تھی؟، آج پاکستان میں معاشی تباہی آگئی ہے، ہم تب تک ذمہ دار ہیں جب تک ہماری حکومت تھی، مجھے ان کی نااہلی اور کرپشن کا پتا تھا، انہوں نے ہی ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ بار بار جنرل باجوہ کو کہتا رہا، ان لوگوں کو 30 سال سے جانتا ہوں، انہیں کامیاب نہ ہونے دیں یہ ملک نہیں سنبھال سکیں گے، انہی لوگوں نے تو ملک کو تباہی پر پہنچایا تو ٹھیک کیسے کر سکتے ہیں؟۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اکنامک سروے کےمطابق 17 سال بعد ہماری حکومت میں معیشت میں گروتھ ہو رہی تھی، کونسی تبدیلی آئی کہ معیشت تباہ اور دہشت گردی بھی انتہا کو پہنچ گئی؟ آج تو عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بھی کم ہیں، ہمارے دور میں عالمی سطح پر پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود گروتھ ہو رہی تھی، آج معیشت کیسے نیچے چلی گئی؟۔
عمران خان نے کہا کہ شہبازشریف اگرسازش نہ کرتے تو آج حالات کی ہم ذمہ داری لیتے، آج ہماری حکومت نہیں تو ہم کیسے ذمہ دار ہو گئے؟ ان کی حکومت میں ڈالر کے مقابلے میں 90 روپے کی قدر نیچے گئی، کیا ہم ذمہ دار ہیں؟ آج لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی بن چکا ہے، تنخواہ دار طبقے کا جینا مشکل ہو گیا ہے، ابھی تو مہنگائی کے مزید اثرات آنے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 16 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہم چھوڑ کر گئے تھے، ہمارے دور میں مہنگائی 16 اور آج 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے، پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی بڑھنے والی ہیں، نوماہ میں 10 ہزار ارب روپیہ قرضوں میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کا بس ایک ہی کارنامہ ہے اپنے کرپشن کیسز کو ختم کیا۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان سے ساڑھے 8 لاکھ نوجوان ملک چھوڑ چکے ہیں، معیشت کی ان کو سمجھ نہیں نا دہشت گردی کو کنٹرول کیا، ایک مشرف اور دوسرا جنرل باجوہ نے ان کو این آراو ٹو دے کر سب سے بڑی غداری کی، ہمیں دہشت گردی اورمعاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، ہمارے خلاف نہ سازش کرتے، الیکشن کے لیے ہم نے اپنی دو اسمبلیوں کو تحلیل کیا، ہمارے اوپر کسی نے بندوق نہیں رکھی تھی کہ حکومت چھوڑ دو، ان کی پوری کوشش ہے کہ الیکشن نہ کرایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آئین میں واضح ہے جب اسمبلی تحلیل ہو گی تو 90 دن کے اندر اندرالیکشن ہو گا، ہم نے الیکشن کرانے کے لیے اسمبلیوں کی قربانی دی، اب یہ لوگ الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ان کے بیرون ملک میں ڈالر کے اکاؤنٹ ہیں، ان کو ڈالر بڑھنے سے فائدہ ہوا، جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہے ان کو موجودہ صورتحال سے خوف آ رہا ہے، پاکستان ہماری ماں اور ہمارا ملک ہے، موجودہ حالات سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جلد سے جلد شفاف الیکشن کرائے جائیں، نئے مینڈیٹ سے آنے والی حکومت بڑے فیصلے کرے گی تو ملک بحران سے نکلے گا۔
عمران خان نے کہا کہ یہ اپنےامپائر، سلیکٹرز، اپنی پچ، اپنے تھرڈ امپائر کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں، یہ مخالف ٹیم کےکپتان اور ان کے اچھے کھلاڑیوں کو باہر رکھنا چاہتے ہیں، جب یہ سمجھیں گے کہ ہماری ٹیم ناکارہ ہو گئی تو لندن میں بیٹھا ڈرپوک نیلسن منڈیلا آئے گا، ایسا نہیں ہونے والا، ایک امپائراللہ اوپر ہے، قوم فیصلہ کر بیٹھی ہےاب کچھ نہیں ہونے والا۔